* کبھی غم نے دل کو دیا سکوں تو خوشی نے & *
کبھی غم نے دل کو دیا سکوں تو خوشی نے درد بڑھا دیا
کبھی دشمنوں نے ہنسا دیا کبھی دوستوں نے رلادیا
تیرے ہجر کی وہ طویل شب اسی کشمکش میں گزر گئی
کبھی اک چراغ جلادیا ، کبھی اِک چراغ بجھا دیا
مجھے دے سکی نہ یہ زندگی کبھی ایک رات سکون کی
میری آنکھ جب بھی ذرالگی کسی حادثے نے جگادیا
میرے دشمنوں کو خبر کرو کہ وہ پھر سے سنگ سمیٹ لیں
تھے جو زخم ان کی امانتیں انہیں آج میں نے گنوادیا
تیری یاد جو مرے دل میں ہے اُسے کیسے دل سے نکال دوں
تیری انجمن تو نہیں ہے یہ جسے چاہا جب بھی اٹھادیا
کبھی تونے اپنا محاسبہ بھی کیا ہے صابرؔ سادہ دل
تجھے دشمنوں سے گلہ ہے کیوں تجھے دوستوں ہی نے کیادیا
****************** |