* وہ آئینہ جو کبھی بن سنورکے دیکھتے *
وہ آئینہ جو کبھی بن سنورکے دیکھتے ہیں
تو لوگ ز ا ویئے اُن کی نظر کے دیکھتے ہیں
حد نگاہ ہی تک کیوں رہے ہماری نگاہ
حد نگاہ سے آگے گزرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے عشق میں مرنے کا ہے مزا کچھ اور
یہ بات ہے تو چلو ہم بھی مر کے دیکھتے ہیں
انہیں طویل مسافت ڈرا بھی سکتی ہے
کہ فاصلے جو مسافر سفر کے دیکھتے ہیں
ہے بھائی بھائی سے بدظن، بہن بہن سے خفا
عجیب حال یہ ہم سارے گھر کے دیکھتے ہیں
ہیں پیارے سنبل ؔو عینان ؔ و طوبیٰؔ و رشدہؔ
جو دیکھتے ہیں اُنہیں آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
کشش یہ چہرۂ خوباں پہ کیسی ہے صابرؔ
کہ چلتے چلتے جنہیں سب ٹھہر کے دیکھتے ہیں
(آخری شعر میں پوتے پوتیوں کا ذکر ہے)
***** |