* عارضی اِسکو ٹھکانہ کیوں نہ سمجھیں *
عارضی اِسکو ٹھکانہ کیوں نہ سمجھیں
ہم جہاں کو جیل خانہ کیوں نہ سمجھیں
کھولیں آنکھیں جن پرندوں نے قفس میں
وہ قفس کو آشیانہ کیوں نہ سمجھیں
تذکرہ جس میں پرانے وقت کا ہو
ایسے قصّے کو پرانا کیوں نہ سمجھیں
عذر جائز کو تو ہم کرتے ہیں تسلیم
عذر بے جا کو بہانہ کیوں نہ سمجھیں
عشق میں دل ہار کر جیتی ہے بازی
اِس کو فتحِ عاشقانہ کیوں نہ سمجھیں
بات کرتا ہو دِوانوں کی طرح جو
ایسے عاقل کو دِوانہ کیوں نہ سمجھیں
کھوچکی ہے اعتبار اپنا جو صابرؔ
اُس حقیقت کو فسانہ کیوں نہ سمجھیں
****
|