* رہینِ سنگِ در کردی گئی ہیں *
رہینِ سنگِ در کردی گئی ہیں
جبینیں معتبر کردی گئی ہیں
ہلا دیتی تھیں جو عرش معلّیٰ
وہ آہیں بے اثر کردی گئی ہیں
زمینوں میں مقدّس سر زمینیں
لہو سے تر بہ تر کردی گئی ہیں
جہاں چلتے تھے ہم بے خوف ہوکر
وہ راہیں پرُ خطر کردی گئی ہیں
جدھر کچھ بھی نہیں ہے دیکھنے کو
نگاہیں سب اُدھر کردی گئیں ہیں
جو تھیں صابرؔ ہماری سجدہ گاہیں
وہ بے دیوار و دَر کردی گئی ہیں
****
|