* مگن تھے بے خودی میں سب خودی کو پوچھ *
مگن تھے بے خودی میں سب خودی کو پوچھتا کون
صفِ اہلِ جنوں میں آگہی کو پوچھتا کون
وہاںتو قہقہوں کی گونج تھی سب کے لبوں پر
مرے ہونٹوںکی شائستہ ہنسی کو پوچھتا کون
تھی اُس تقریب میں اُونچے تعلق کی نمائش
غریبِ شہر کی ہمسائیگی کو پوچھتا کون
وہاں تو حیثیت سورج کی بھی کم پڑرہی تھی
دیئے کی ٹمٹماتی روشنی کو پوچھتا کون
بڑی آسان تھیں مقتل میں جاں بخشی کی شرطیں
مگر ذلّت زدہ اُس زندگی کو پوچھتا کون
جہاں بے سائباں تھے سائباں والے بھی صابرؔ
وہاں ہم بے گھروں کی بے گھری کو پوچھتا کون
****
|