* ایسی جنبش ہوئی چشمِ غمّاز میں *
ایسی جنبش ہوئی چشمِ غمّاز میں
کچھ نہ باقی رہا صیغۂ راز میں
ہر بلندی پہ انسان پہنچا کہاں
کچھ کمی ہے ابھی اُس کی پرواز میں
اک اچٹتی نظر سے بھی پوچھا نہیں
ہم بھی تھے آپ کی محفلِ ناز میں
کیوں نہ سنتا زمانہ بڑے غور سے
دھڑکنیں دل کی تھیں میری آواز میں
سب نے اپنی سنائی ہے اپنی طرح
میں نے اپنی کہی اپنے انداز میں
کون صابرؔ مری خامشی میں ہے گم
کس کی آواز ہے میری آواز میں
****
|