* ہم اُس کے ہاتھ کے پتھر کو دیکھیں *
ہم اُس کے ہاتھ کے پتھر کو دیکھیں
کہ اپنے زخم خوردہ سر کو دیکھیں
کہاں ہے اتنی فرصت آج ہم کو
کہ جی بھر کے کسی منظر کو دیکھیں
اگر ہو دیکھنا کوزے میں دریا
تو آئیں میری چشمِ تر کو دیکھیں
غبارِ غم ذرا چہرے پہ مل کر
کبھی احباب کے تیور کو دیکھیں
جو بازی جیت کر بھی ہار بیٹھے
بھلا کیا ایسے بازی گر کو دیکھیں
جو گھر ہے بے گھری کا بوجھ اُٹھائے
چلو چل کر ذرا اُس گھر کو دیکھیں
کہاں سے ایسی آنکھیں لائے صابرؔ
نئی تہذیب کے منظر کو دیکھیں
*****
|