* شدتِ غم سے اب آنسو بھی ٹپکتے کم ہیں *
شدتِ غم سے اب آنسو بھی ٹپکتے کم ہیں
آج کل دیدۂ پُرآب چھلکتے کم ہیں
گرمیٔ حسن بھی چہرے پہ نظر آتی نہیں
شعلۂ عشق بھی اب دل میں بھڑکتے کم ہیں
لوگ پہلے کی طرح ٹوٹ کے ملتے ہیں کہاں
گرم جوشی سے بھرے ہاتھ لپکتے کم ہیں
تم سمجھتے نہیں اِس شہر کے سکّوں کا مزاج
یہ غریبوں کے مکانوں میں کھنکتے کم ہیںکا
جگمگانے کے لئے چاہئے سورج کی تپش
دھوپ اگر کم ہو تو ذرّے بھی چمکتے کم ہیں
خوبیاں ہی نظر آتی ہیں بڑے لوگوں کی
عیب دنیا کی نگاہوں میں جھلکتے کم ہیں
درد محسوس کرے کون کسی کا صابرؔ
دوسروں کیلئے اب دل بھی دھڑکتے کم ہیں
*****
|