* عجب تیور یہ اُن کے چاک دامانوں کے ل *
عجب تیور یہ اُن کے چاک دامانوں کے لگتے ہیں
یہ اندازِ جنوں چالاک دیوانوں کے لگتے ہیں
یہاں ویرانیاں بھی چھائی رہتی ہیں سلیقے کی
یہ اُجڑے بام و در باذوق انسانوں کے لگتے ہیں
کشش رکھتے ہیں کچھ منہ بولے رشتے بھی زمانے میں
کہ بالکل اپنوں جیسے چہرے بیگانوں کے لگتے ہیں
تم آئندہ فسانے کا کوئی عنوان مت رکھنا
اب اُونچے دام بے عنوان افسانوں کے لگتے ہیں
کرے گا کون اظہارِ محبت شمع کی لَو سے
کہ ا ب تو حوصلے بھی پست پروانوں کے لگتے ہیں
کہیں اُٹھتے ہیں شعلے آرزوئوں کی چتائوں سے
کسی کوچے پہ صابرؔ میلے ارمانوں کے لگتے ہیں
*****
|