* زمین چاہے ہزج کی ہو یا رمل کی زمین *
زمین چاہے ہزج کی ہو یا رمل کی زمین
ہے آسمان سے بھاری مگر غزل کی زمین
سنارہی ہے فسانہ ہمارے پرکھوں کا
تمہارے شہر کے جنت نشاں محل کی زمین
یہیں پہ غازیٔ گفتار ہار جاتے ہیں
ہے سنگلاخ بڑی وادیٔ عمل کی زمین
اگر چہ فاصلے حائل ہیں لاکھوں صدیوں کے
جڑی ہوئی ہے اَبد سے مگر اَزل کی زمین
وہی بتائے گی فرعونِ مصر کا انجام
بہ سطحِ نیل جو اُبھری تھی چند پل کی زمین
ہمارے پائے سخن لڑکھڑا نہیں سکتے
سنبھالے رکھتی ہے صابرؔ ہمیں غزل کی زمین
****
|