* مسئلے حل کئے بن چھوڑ دیئے جاتے ہیں *
مسئلے حل کئے بن چھوڑ دیئے جاتے ہیں
رابطے فکر کے جب توڑ دیئے جاتے ہیں
سنگساری کی سزا اُن کو بھی دی جاتی ہے
بے گناہوں کے بھی سر پھوڑ دیئے جاتے ہیں
گرم ہوجاتا ہے افواہوں کا بازار اُن سے
ایسے شوشے بھی کبھی چھوڑ دیئے جاتے ہیں
اندھے دریا کے ابلتے ہوئے سیلاب کے رخ
گونگی بستی کی طرف موڑ دیئے جاتے ہیں
سلسلے جتنے تشدّد کے یہاں ہیں صابرؔ
میرے ہی کھاتے میں سب جوڑ دیئے جاتے ہیں
****
|