* بصد خلوص ہم یہ اہتمام کرتے آئے ہیں *
بصد خلوص ہم یہ اہتمام کرتے آئے ہیں
کہ اپنے دشمنوں کو بھی سلام کرتے آئے ہیں
سرورِبے خودی میں بھی جو ہیں خودی سے آشنا
ہم اُن کی بے خودی کا احترام کرتے آئے ہیں
ہماری تشنگی کا کرب کیا سمجھ سکیں گے وہ
جو اپنی تشنگی کو غرقِ جام کرتے آئے ہیں
یہ قافلے تھکے ہوئے نہیں دکھائی دیتے کیوں
ضرور راہ میں کہیں قیام کرتے آئے ہیں
وہ امن و آشتی کے ہیں پیامبر بنے ہوئے
جو لوگ اِس جہاں میں قتلِ عام کرتے آئے ہیں
بچھا کے چشم اشتیاق صابرؔ اُن کی راہ میں
ہم اُن کا انتظار صبح و شام کرتے آئے ہیں
*****
|