* حوصلہ دل میں جو کم رکھتے نہیں *
حوصلہ دل میں جو کم رکھتے نہیں
اپنی ناکامی کا غم رکھتے نہیں
اُن کے ہاتھوں میں نہ دو سازِ حیات
جو شعورِ زیر و بم رکھتے نہیں
دور کر دے منزلوں سے جو ہمیں
ایسے رستے پر قدم رکھتے نہیں
پیٹ بھرنے کی ہمیں بھی فکر ہے
پر حریصوں سا شکم رکھتے نہیں
دیتے ہیں ساقی بھی اب منہ دیکھے جام
سب کے آگے جامِ جم رکھتے نہیں
بادلوں نے بھی سیاست سیکھ لی
کھیتیاں سب کی وہ نم رکھتے نہیں
سچ ہے صابرؔ شعر گوئی کا شعور
اہلِ بنگالہ بھی کم رکھتے نہیں
****
|