* دل منافق جیسا ہم رکھتے نہیں *
دل منافق جیسا ہم رکھتے نہیں
آستینوں میں صنم رکھتے نہیں
دوریاں شیخ و برہمن کے ہیں بیچ
فاصلے دیر و حرم رکھتے نہیں
جسم پر ٹانکے ہوئے بھاری لباس
آدمیت کا بھرم رکھتے نہیں
اُن کے پیچھے پیچھے ہم کیونکر چلیں
آگے آگے جو قدم رکھتے نہیں
ہوتی ہے یہ بات انسانوں میں بھی
راستے ہی پیچ و خم رکھتے نہیں
تنگ دستی ہے اگر تو کیا ہوا؟
تنگ اپنا دل تو ہم رکھتے نہیں
ہم تو ہیں صابرؔ چراغِ رہ گزر
خانقاہ و آشرم رکھتے نہیں
****
|