donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Halim Sabir
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* روشنی اُس میں جمع کیونکر ہو *
روشنی اُس میں جمع کیونکر ہو
برق ما نندِ شمع کیونکر ہو

بادِ صرَصرَ تو بادِ صرَصرَ ہے
ناز بردارِ شمع کیونکر ہو

حکمرانی جہاں ہو ظالم کی
ظلم کا قلع قمع کیونکر ہو

بات ہوتی ہو جب نگاہوں میں
اُس سے محظوظ سمع کیونکر ہو

روشنی اور تیرگی صابرؔ
ایک مرکز پہ جمع کیونکر ہو
****




جو عقل رَد کرے قبول مت کرو
کہ بھول سے بھی ایسی بھول مت کرو

پہنچ نہ پائے جو کسی نتیجے پر
مباحثے کو اتنا طول مت کرو

ہو قیل و قال مختصر سے مختصر
زیادہ گفتگو فضول مت کرو

کسی اُصول سے اگر ہو اختلاف
تو اختیار وہ اُصول مت کرو

ہو جس کے پاس کچھ نہ دینے کے لئے
اُس آدمی سے کچھ وصول مت کرو

ذرا ذرا سی بات سن کے صابرؔ اب
یوں اپنے آپ کو ملول مت کرو
*****




سکوتِ ساحل پہ باڑھ مارو
اُٹھو سمندر کے تیز دھارو

کوئی نہ دے گا تمہیں سہارا
یونہی رہو گے جو بے سہارو

نئے زمانے کا ہے تقاضا
لباسِ کہنہ کو اب اتارو

ہے بیل گاڑی بھی تم سے آگے
ہوا تمہیں کیا یہ شہسوارو

اُٹھا نہ پائو گے پھر کبھی سر
جو َسر جھکائو گے کوہسارو

کرو نیا آسمان پیدا
مری زمینوں کے چاند تارو

نہ دیکھو اَوروں کے عیب صابرؔ
تم اپنی زلفِ ہنر سنوارو
****


گلشنِ گیتی بہاروں سے نہ کیوں محروم ہو
جنگ کے شعلوں سے جب ساری فضا مسموم ہو

ہو اگر دلچسپ تو سنتے ہیں دلچسپی سے لوگ
قصۂ منثور یا افسانۂ منظوم ہو

کامیابی کے لئے تدبیر کرنا چاہئے
نامرادی کب تلک تقدیر سے موسوم ہو

ایک پل کے بعد کیا ہوگا کسی کو کیا پتہ
یہ خبر ہے غیب کی کیسے ہمیں معلوم ہو

کون روکے گا زمانے کے تغیر کو بھلا
ہے جو حاکم آج ہوسکتا ہے کل محکوم ہو

کوئی اپنے آپ ہی پر ظلم کرتا ہو اگر
وہ زمانے کی نظر میں کیوں بھلا مظلوم ہو

گھیرے رہتے ہیں ہمیں صابرؔ زمانے بھر کے غم
شدتِ غم سے ہمارا دل نہ کیوں مغموم ہو
****


زیست ایسا سوال ہے یارو
جس کا حل بھی محال ہے یارو

ایسا لگتا ہے آج کل کچھ تیز
گردشِ ماہ و سال ہے یارو

زہر پی جانا ہے بہت آسان
اشک پینا محال ہے یارو

جس کو کہتے ہو انتہائے عروج
ابتدائے زوال ہے یارو

روکے جینا کوئی کمال نہیں
ہنس کے جینا کمال ہے یارو

اُونچے لوگوں سے رشتۂ امید
ایک کمزور ڈال ہے یارو

فکروفن کے لحاظ سے خوشحال
صاؔبرِ خستہ حال ہے یارو
****


نہ دے مجھ کو خوشی حد سے زیادہ
جو ہو جائے مرے قد سے زیادہ

ملا سرمایۂ بے کار ہم کو
متاعِ کار آمد سے زیادہ

ہماری نیکیوں کی داستاں ہے
ہمارے قصّۂ بد سے زیادہ

مسافر کے لئے ہے یہ بھی لازم
نہ جائے دُور مقصد سے زیادہ

عزیز اُن کو نہیں ہے کوئی بھی چیز
حکومت اور مسند سے زیادہ

ہے رونق صوفیوں کے مقبرے پر
شہنشاہوں کے مرقد سے زیادہ

عقیدت ہے ہمارے دل کو صابرؔ
اَحد کے بعد احمدؐ سے زیادہ
****


 
Comments


Login

You are Visitor Number : 304