* کھلے گا عشق کا ایک ایک باب آہستہ آہ *
کھلے گا عشق کا ایک ایک باب آہستہ آہستہ
پڑھا کرتے رہو دل کی کتاب آہستہ آہستہ
بلائیں ہم پہ نازل آسمانوں سے نہیں ہوتیں
خطائیں ہم پہ لاتی ہیں عذاب آہستہ آہستہ
غریبی ، مفلسی ، بیچارگی ، افلاس ، بیکاری
کیا کرتی ہیں پیدا انقلاب آہستہ آہستہ
برُا بن کر زمانے میں کوئی پیدا نہیں ہوتا
برُی صحبت سے ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ
مسلسل کوششوں پر کوششیں کرتا ہے جو انساں
وہ ہوتا ہے جہاں میں کامیاب آہستہ آہستہ
لگائی جارہی ہے یہ جو پابندی نقابوں پر
نہ مٹ جائے کہیں رسمِ حجاب آہستہ آہستہ
خبر ہے آج صابرؔ انجمن میں کس کے آنے کی
بڑھاجاتا ہے دل کا اضطراب آہستہ آہستہ
****
|