* صدا جو بارِ سماعت ہو کان پر مت رکھ *
صدا جو بارِ سماعت ہو کان پر مت رکھ
ثقیل لفظ غزل کی زبان پر مت رکھ
کسی بھی ایک طرف رہ ،ہے اختیار تجھے
زمیں پہ پائوں دماغ آسمان پر مت دکھ
بلندیوں پہ سنبھلنا اگر نہیں آتا
تو اپنے آپ کو اُونچی اُڑان پر مت رکھ
تری سمجھ سے ہے باہر مرا فسانۂ دل
تو اپنی رائے مری داستان پر مت دکھ
بھروسہ کیا ہے بھلا سر پھری ہوائوں کا
سفینہ ہاتھ میں رکھ بادبان پر مت رکھ
خدا کی ذات پہ مجھ کو یقین ہے صابرؔ
مرے یقین کو وہم و گمان پر مت رکھ
****
|