* عہدِ رفتہ کی روایت نہیں رہنے دے گی *
عہدِ رفتہ کی روایت نہیں رہنے دے گی
نئی تہذیب شرافت نہیں رہنے دے گی
سنگ باری کی وبا پھیل رہی ہے ہرسو
کوئی شیشے کی عمارت نہیں رہنے دے گی
بے گناہی کو سلاخوں سے نکل آنے دو
ظا لموں کی یہ عدالت نہیں رہنے دے گی
نئے قدموں کی یہ بڑھتی ہوئی بے راہ روی
راہ میں سنگِ ہدایت نہیں رہنے دے گیؑؑؑؑ
دن پہ دن بڑھتی رہی یوں جو بناوٹ کی بھیڑ
اک حقیقت بھی سلامت نہیں رہنے دے گی
جگمگاتی ہوئی اِس دَورکی جدّت صابرؔ
رنگِ آثارِ قدامت نہیں رہنے دے گی
******
|