* تھی اضطرابِ دل میں کمی اور بڑھ گئی *
تھی اضطرابِ دل میں کمی اور بڑھ گئی
وہ آگئے تو دل کی لگی اور بڑھ گئی
کس طرح لوگ پی کے بجھاتے ہیں اپنی پیاس
میں نے جو پی تو پیاس مری اور بڑھ گئی
جب رفتہ رفتہ اشک مرے خشک ہوچلے
پلکوں پہ آنسوئوں کی نمی اور بڑھ گئی
کوشش مجھے رلانے کی دنیا نے کی بہت
لیکن مرے لبوں پہ ہنسی اور بڑھ گئی
بڑھتی گئی جو عمر تو دھندلی ہوئی نگاہ
لیکن ہماری دیدہ وری اور بڑھ گئی
جب راہِ زندگی میں حسیں ہم سفر ملا
تو آرزوئے ہم سفری اور بڑھ گئی
صابرؔ رہی نہ دل کی خلش ایک حال پر
تھوڑی کبھی کمی تو کبھی اور بڑھ گئی
**** |