* منظرِ ہستی سے کٹ کر رہ گئی ہے زندگی *
منظرِ ہستی سے کٹ کر رہ گئی ہے زندگی
چند گوشوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے زندگی
کل سہانے خواب آنکھوں میں سجا دیتی تھی یہ
آج آنکھوں سے اُچٹ کر رہ گئی ہے زندگی
وسعتیں پہلے جو تھیں وہ آج اِس میں ہیں کہاں؟
گھٹتے گھٹتے کتنی گھٹ کر رہ گئی ہے زندگی
ایک مرکز پر دکھائی آج کل دیتی نہیں
مختلف خانوں میں بٹ کر رہ گئی ہے زندگی
اس قدر اپنالئے اس نے غلط رسم و رواج
اب اصولوں سے بھی ہٹ کر رہ گئی ہے زندگی
نیند اب آتی نہیں صابرؔ چٹائی پر اسے
نرم بستر سے چمٹ کر رہ گئی ہے زندگی
*****
|