* ضروراُن کے مقا بل آندھیاںرکھ دی گ *
ضروراُن کے مقا بل آندھیاںرکھ دی گئی ہوںگی
بھنور کی گود میں جو کشتیاں ر کھ دی گئی ہوں گی
سمجھ کر جن کو منزل کا نشاں سب چل پڑے ہوں گے
سجا کر راہ میںگمراہیاں رکھ دی گئی ہوںگی
سمندرسے کہیں شعلوںکے فوّارے اُبلتے ہیں
دباکر آب میں چنگاریاں رکھ دی گئی ہوں گی
ذرا سی بات پر ہرگز نہ اتنا تلملاتا وہ
یقینا دکھتی رگ پر انگلیاں رکھ دی گئی ہوں گی
کب اتنی بھیڑ ہوتی چاکِ دامن کی نمائش میں
مرے دامن کی بھی کچھ دھجیاں رکھ دی گئی ہو ں گی
ابھی تو اور چلنا تھا اُسے، وہ منزلوں چلتا
مگر قدموں تلے مجبوریاں رکھ دی گئی ہوں گی
اُجالا اِس قدر کیوں آج صاؔبر گلستاں میں ہے ؔ
کسی شاخِ شجرپربجلیاں رکھ دی گئی ہوںگی
****
|