* خاکساری اسے نہیں کہتے ہر جگہ اپنے *
خاکساری اسے نہیں کہتے ہر جگہ اپنے سر کو خم کردو
جس جگہ پر وقار ہو مجروح اپنی ہستی کو میں سے ہم کردو
ہوگی سچی طلب تو پالیں گے لوگ اندھیرے میں اپنی منزل کو
دیر کی راہ کے بجھادو دیئے گل چراغِ رہ حرِم کردو
سخت مشکل ہیں عشق کی راہیں رہبری عقل کر نہیں سکتی
دل کو کردو یہاں پہ خود مختار عقل کا اختیار کم کردو
ٹمٹماتے ہوئے چراغوں سے تیرگی دور ہو نہیں سکتی
چھوٹے چھوٹے دیئے جو روشن ہیں ایک مرکز پہ سب کو ضم کردو
اِس میں اُگتے ہیں پیار کے پودے ِاس میں کھلتی ہیں پیار کی کلیاں
خاک اپنے وطن کی ہے زر خیز شرط یہ ہے کہ ِاس کو نم کردو
چھوڑ دے گی تمہیں بہت پیچھے عہدِ نوکی یہ تیز رفتاری
ہے تقاضائے رہروی صابر ؔتیز کچھ اور اب قدم کردو
******************* |