* نئی نئی تو داستاں کہی گئی سنی گئی *
نئی نئی تو داستاں کہی گئی سنی گئی
مگر بطرزِ نو کہاں کہی گئی سنی گئی
اُسی کی حمد کی گئی کبھی بھجن کی شکل میں
کبھی بہ صورتِ اذاں کہی گئی سنی گئی
پیمبروں کی بات آسمان سے بلند تھی
کہ جو بہ زیر آسماں کہی گئی سنی گئی
پہنچ گئی وہ بات کیسے دشمنوں کے کان تک
جو دوستوں کے درمیاں کہی گئی سنی گئی
یقین ہوتا اُس پہ کیا سنی سنائی بات تھی
اِدھر ، اُدھر ، یہاں وہاں کہی گئی سنی گئی
ہماری آپ بیتی پر ہزاروں دل تڑپ اٹھے
جہاں میں یہ جہاں جہاں کہی گئی سنی گئی
کبھی ہوئی نہیں مری گلی میں میرے گھر کی بات
تری گلی میں جانِ جاں کہی گئی سنی گئی
****
|