* سنبھل کر پائوں رکھ پانی بہت ہے *
سنبھل کر پائوں رکھ پانی بہت ہے
کہ بحرِ فن میں طغیانی بہت ہے
اَکارت کردے جو برسوں کی محنت
گھڑی بھر ہی کی نادانی بہت ہے
چلو صحرا سے رونق مانگ لائیں
چمن میں آج ویرانی بہت ہے
ترے راحت کدے میں جاکے دیکھا
ہے راحت کم پریشانی بہت ہے
وہاں میرے لئے چلنا ہے مشکل
تری راہوں میں آسانی بہت ہے
کہاں سے تم اُٹھا لائے یہ تہذیب
میاں اِس میں تو عریانی بہت ہے
کوئی نازاں فقیری پر ہے صابرؔ
کسی کو زعمِ سلطانی بہت ہے
****
|