* نظر سے چُھپ کے نظر میں رہے تو اچھا ہ *
نظر سے چُھپ کے نظر میں رہے تو اچھا ہے
وہ درد بن کے جگر میں رہے تو اچھا ہے
اُٹھے نگاہ مری کیوں کسی کے عیبوں پر
خود اپنا عیب نظر میں رہے تو اچھا ہے
فرشتہ بن کے وہ اپنا وقار کھو دے گا
بشر حدودِ بشر میں رہے تو اچھا ہے
ہیں دونوں جس کے سبب ایک دوسرے کی ضد
وہ فرق عیب و ہنر میں رہے تو اچھا ہے
نہ راس آئے گی شاہیں کو وادیٔ پستی
بلندیوں کے سفر میں رہے تو اچھا ہے
بنوں میں تیرے سوا کیوں کسی کا سودائی
ترا ہی سودا جو سر میں رہے تو اچھا ہے
وہ چاہتے ہیں کہ صابرؔ ہماری آبادی
حصارِ خوف و خطر میں رہے تو اچھا ہے
****
|