* برس رہی تھی سر پہ دھوپ چند سائبان ت *
برس رہی تھی سر پہ دھوپ چند سائبان تھے
کھڑے تھے لوگ اَن گنت گنے چنے مکان تھے
فلک بھی دیکھتا تھا اُن کو رشک کی نگاہ سے
ہماری اِس زمین پر کچھ ایسے آسمان تھے
یہ آدمی کو پوجنے کی رسم کیسے پڑگئی؟
ابھی تو مندروں میں دیوتا براجمان تھے
عدالتوں نے بھی اُنہی پہ فیصلہ سنا دیا
مرے خلاف اُس کے جو غلط سلط بیان تھے
صدائے حق کو بھی اُنہی میں کرلیا گیا شمار
جو شور و شر کے مسئلے ہمارے درمیان تھے
اِس امتحان گاہ سے اُس امتحان گاہ تک
ہمارے نام پر لگے سوالیہ نشان تھے
اُگا رہے ہیں صابرؔ آج شاعری کی فصل ہم
ہمارے خاندان کے بزرگ بھی کسان تھے
****
|