* تیر کو بھاری لگے تلوار کو بھاری لگ *
تیر کو بھاری لگے تلوار کو بھاری لگے
ایسی گردن رکھ صلیب و دار کو بھاری لگے
تیز ہو تو ڈھیر کردے گردنوں پر گردنیں
کند ہو تو ایک سر تلوار کو بھاری لگے
کھوکھلی بنیاد ہوگی ورنہ یہ ممکن نہیں
کانچ کی چھت آہنی دیوار کو بھاری لگے
چاہئے اُن کو کوئی احسان اپنے سر نہ لیں
’’شکریہ‘‘ جن کے لبِ اظہار کو بھاری لگے
ہے یہی وہ رات جس کو ’’رت جگا‘‘ کہہ لیجئے
ہے یہی وہ رات جو بیمار کو بھاری لگے
تم متاعِ خار و خس تھے بک رہے تھے ہاتھوں ہاتھ
ہم تھے وہ جنسِ گراں بازار کو بھاری لگے
کیا کریں ہم اپنی اِس نازک مزاجی کا علاج
یہ بھی اے صابرؔ مزاجِ یار کو بھاری لگے
*****
|