* جذبۂ عشق مرا حد سے سوا ہوجائے *
جذبۂ عشق مرا حد سے سوا ہوجائے
میں ترا نام جو لوں تجھ کو پتہ ہوجائے
پھر مسیحا کو نہ زحمت ہو مسیحائی کی
دردِ دل حد سے بڑھے یوں کہ دوا ہوجائے
خاکسارانِ محبت سے گلے تو مل لوں
ہونے دو مجھ سے خفا میری انا ہوجائے
غائبانہ تو کئے میں نے ہزاروں سجدے
روبرو بھی ترے اک سجدہ ادا ہوجائے
دوریاں خون کے رشتوں کی مٹادیں پہچان
کوئی اِس طرح نہ اپنوں سے جدا ہوجائے
آئینہ دیکھ کے بھی آنے لگے شرم اُس کو
اس قدر کیوں کوئی پابندِ حیا ہوجائے
پیار آئے اُسے صابرؔ مری گستاخی پر
خوبصورت سی کوئی مجھ سے خطا ہوجائے
*****
|