* جس قدر آگے بڑھے ہم طے سفر ہوتے گئے *
جس قدر آگے بڑھے ہم طے سفر ہوتے گئے
فاصلے بھی ہر قدم پر مختصر ہوتے گئے
سامنے تھا و قت کا عفریت منہ کھولے کھڑا
ہم مقابل اُس کے بے خوف و خطر ہوتے گئے
دوستی جب اُس کے آگے ہوگئی سینہ سپر
سارے حربے دشمنی کے بے اثر ہوتے گئے
لفظ و معنی کی صدف میں جب ملی اُن کو پناہ
فکر کی شبنم کے قطرے بھی گہر ہوتے گئے
جلوہ آرائی تری ہوتی گئی زیبِ نگاہ
اور ہم پابندِ آدابِ نظر ہوتے گئے
اور ہم کو زندگی کا تجربہ ہوتا گیا
زندگی سے ہم پریشاں جس قدر ہوتے گئے
صابرؔ اُن کا گھر بسانا بھی مجھے مقصود تھا
دور نظروں سے مرے نورِ نظر ہوتے گئے
*****
|