* ہزارہا داستانِ عالم بیاں کریں ہم ª *
ہزارہا داستانِ عالم بیاں کریں ہم کہاں سے پہلے
کہ اُن میں کس داستان کو ہم سنائیں کس داستاں سے پہلے
یہ کیا کہ غم ہی کے تذکرے سے ہو روز آغاز صبحِ نو کا
سنا خوشی کی کہانیاں بھی حکایتِ خوں چکاں سے پہلے
اِدھر بھی تھیں سنگلاخ راہیں اُدھر بھی دشوار راستے تھے
سفر ضروری تو تھا مگر ہم شروع کرتے کہاں سے پہلے
کبھی اِدھر سے کبھی اُدھر سے چلے جو رستہ بدل بدل کر
نشانِ منزل بھی چھوڑ آئے وہ منزلِ بے نشاں سے پہلے
جو لوگ شامل تھے کارواں میں وہ دُور منزل سے ہیں ابھی تک
میں سوئے منزل چلا اکیلا پہنچ گیا کارواں سے پہلے
*****
|