* نہ بے خودی نہ خودی کا سراغ چاہتی ہے *
نہ بے خودی نہ خودی کا سراغ چاہتی ہے
ہوس کی تشنہ لبی بس ایاغ چاہتی ہے
انا پسند طبیعت کی بات مت پوچھو
ہمیشہ عرشِ بریں پر دماغ چاہتی ہے
عجیب حال ہے دنیا کی کور چشمی کا
چراغ سامنے رکھ کر چراغ چاہتی ہے
وہ زندگی تو کوئی زندگی نہیں ہوتی
کہ جو ہجومِ جہاں سے فراغ چاہتی ہے
تھکی تھکی مری صحرا نوردی اب کے برس
بجائے دشت و بیابان باغ چاہتی ہے
گلوں کی شاخ پہ مرغانِ خوشنوا کی جگہ
جدید طرز کی پھلواری زاغ چاہتی ہے
سخنوری بھی سیاست زدہ ہوئی صابرؔ
کہ اب غزل بھی سیاسی دماغ چاہتی ہے
*****
|