* مرے ہونٹوں میں جنبش ہو رہی ہے *
مرے ہونٹوں میں جنبش ہو رہی ہے
غزل کہنے کی خواہش ہو رہی ہے
بنانے کے بھی چرچے رات دن ہیں
مٹانے کی بھی کوشش ہو رہی ہے
خس و خاشاک کے بھی پھر گئے دن
اب اُن کی بھی نمائش ہو رہی ہے
یہاں بندے بھی پوجے جا رہے ہیں
خدا کی بھی پرستش ہو رہی ہے
سجائی جا رہی ہیں سجدہ گاہیں
عبادت کی نمائش ہو رہی ہے
جفا کے ہاتھ میں خنجر ہے صابرؔ
وفا کی آزمائش ہو رہی ہے
*****
|