* زندگی تھی قرض گویا قرض پر جیتے رہے *
زندگی تھی قرض گویا قرض پر جیتے رہے
قرض کے کھاتے میں ہم کھاتے رہے پیتے رہے
ستر پوشی کی ہماری بخیہ و پیوند نے
زندگی بھر جامۂ صد چاک ہم سیتے رہے
موت اپنی سازشوں کے جال پھیلاتی رہی
جن کو جینے کا ہنر آتا تھا وہ جیتے رہے
گفتگو میں آئے کیا شیریں کلامی کا مزہ
درمیانِ گفتگو الفاظ اگر تیتے رہے
اُونچے قد والوں کو چھوٹا کرکے ناپا جائے گا
مصلحت کے تنگ ہاتھوںمیںاگرفیتے رہے
****
|