* دریچے کھولے گئے جو ذرا اُجالوں کے *
دریچے کھولے گئے جو ذرا اُجالوں کے
اندھیرے بن گئے دشمن چراغ والوں کے
رہِ حیات میں کچھ نقشِ پا بھی چھوڑے جائو
وہ کام آئیں گے کل پیچھے آنے والوں کے
کبھی سوال نے منہ کردئے جواب کے بند
کبھی جواب نے لب سی دیئے سوالوں کے
ملے گا عیب بھی اُن میںُ چھپا ہوا کوئی
ہنر دکھائی جو دیتے ہیں با کمالوں کے
مرے لبوں کو فرشتوں نے آکے چوم لیا
کہ میں نے بوسے لئے تھے یتیم گالوں کے
ہم آندھیوں سے حفاظت کریں گے دونوں کی
وہ ہوں چراغِ حرم یا دیئے شوالوں کے
سمجھتا کرب ہمارا ستم ظریف وہ کیا
مذاق جس نے اُڑائے ہمارے نالوں کے
**** |