* جب طبیعت اُداس ہوتی ہے *
جب طبیعت اُداس ہوتی ہے
زندگی محوِ یاس ہوتی ہے
شخصیت اُس سے چھپ نہیں سکتی
آنکھ مردم شناس ہوتی ہے
بھیک میں جامِ جم قبول نہ کر
اِس سے شرمندہ پیاس ہوتی ہے
منہ نہیں کھولتے وہاں ہم لوگ
رَد جہاں التماس ہوتی ہے
پیش کی جاتی ہے ثبوت کے طور
بات جو اقتباس ہوتی ہے
شب کے سناٹے میں کوئی آہٹ
وجہِ خوف و ہراس ہوتی ہے
جلتی ہے شمع عشق جب صابرؔ
روشنی دل کے پاس ہوتی ہے
*****
|