* راہ چلتا وہ کیوں نہ رک رک کے *
راہ چلتا وہ کیوں نہ رک رک کے
جب کماں بن گئی کمر جھک کے
جل رہے ہیں درِ عقیدت پر
کچھ دیئے آج بھی تبرک کے
طائروں کے لرز رہے تھے دل
ہل رہے تھے ستون کابک کے
ہوکے مقروض خانداں کتنے
دب گئے بوجھ سے تمسک کے
شہسوارانِ جنگ کرتے ہیں
شہسواری بغیر چابک کے
رکھ دیئے اُس نے بھی خلا میں قدم
حوصلے دیکھو صنفِ نازک کے
ہے وہی آدمی بڑا صابرؔ
اپنے چھوٹوں سے جو ملے جھک کے
****
|