* سکون و عافیت اُس کو نہ کیوں نصیب رہ *
سکون و عافیت اُس کو نہ کیوں نصیب رہے
وہ حق پرست کہ باطل کے جو قریب رہے
نہ دوستی ہی نبھائی، نہ دشمنی رکھی
تعلقات ترے ہم سے کچھ عجیب رہے
وہ طرز میں نے رقابت میں اختیار کیا
کہ متفق مرے اخلاق سے رقیب رہے
اصولِ چارہ گری کے خلاف ہے یہ بات
کسی مریض سے مایوس کیوں طبیب رہے
اثر کسی پہ ہو اُس کے خطاب کا کیونکر
خطاب کر کے پشیماں اگر خطیب رہے
خدا کے سامنے انساںسب ایک ہیں صابرؔ
کوئی امیر رہے یا کوئی غریب رہے
****
|