* انصاف کی نگاہ سزا تک ہی کیوں رہے *
انصاف کی نگاہ سزا تک ہی کیوں رہے
محصور ہو کے جرم و خطا تک ہی کیوں رہے
ہو بزمِ زندگی میں خوشی کا بھی تذکرہ
ذکرِ حیات آہ و بکا تک ہی کیوں رہے
رکھئے پڑوسیوں سے بھی گہرے تعلقات
ہمسائیگی سلام و دعا تک ہی کیوں رہے
ہے حسن کی یہ شان کہ ہر رنگ ہو عیاں
رنگِ شباب رنگِ حنا تک ہی کیوں رہے
شکوہ بھی گاہے گاہے کرو بندگی کے ساتھ
نسبت خدا سے حمد و ثنا تک ہی کیوں رہے
صابرؔ کا ہے خیال جہاں تک پہنچ سکے
محدود ہو کے ارض و سما تک ہی کیوں رہے
*****
|