* زمیں سے نکل پڑے کہ آسماں سے آگئے *
زمیں سے نکل پڑے کہ آسماں سے آگئے
مرے خدا یہ سیکڑوں خدا کہاں سے آگئے؟
ہمارے قافلے کی تیز گامیوں کو دیکھ کر
نکل کے لوگ اپنے اپنے کارواں سے آگئے
گئے تھے آسمان پر زمین کی تلاش میں
مگر پلٹ کے نامراد آسماں سے آگئے
ہماری رہروی پہ چند ساعتوں کی قید تھی
اُسی میں گھوم پھر کے ہم کہاں کہاں سے آگئے
دھماکہ اتنا سخت تھا کہ سارا باغ ہل گیا
پرندے بھی نکل کے اپنے آشیاں سے آگئے
سلوک صابرؔ اُن کا کچھ عجیب سالگا ہمیں
ہم اٹھ کے آج دوستوں کے درمیاں سے آگئے
****
|