* نئی راہوں پہ چلتے تو نئے کچھ ہمسفر *
نئی راہوں پہ چلتے تو نئے کچھ ہمسفر ملتے
نیا ماحول بھی ملتا نئے دیوار و در ملتے
زمیں پر رہ کے اک ٹوٹا ستارہ بھی نہ ہاتھ آیا
خلائوں کی طرف جاتے تو کچھ شمس و قمر ملتے
تمہارے شہر میں مانا ہزاروں آنکھ والے ہیں
ہمارے گائوں میں آتے تو کچھ اہلِ نظر ملتے
جھکے تھے پائوں پر جو سر اُنہیں توقیر کیا ملتی
ادب سے چومتی دنیا اگر نیزوں پہ سر ملتے
عجب یہ َدور ہے انسان سے انسان ڈرتا ہے
سبھی انسان تھے آپس میں بے خوف و خطر ملتے
خزاں دیدہ چمن میں دیکھنے کو اور کیا ملتا
خزاں کی دھوپ سے جھلسے ہوئے برگ و شجر ملتے
سمجھ کر سنگ ریزے تم نے ٹھکرایا جنہیں صابرؔ
پر کھتے ڈھونڈتے اُن میں تو کچھ لعل وگہر ملتے
****
|