* دیارِ صبح کے دَر تک ابھی نہیں پہنچ *
دیارِ صبح کے دَر تک ابھی نہیں پہنچے
ستارے بامِ سحر تک ابھی نہیں پہنچے
تھکن سفر کی ہو محسوس کیا ابھی اُن کو
جو اختتامِ سفر تک ابھی نہیں پہنچے
جنوں کے پائوں کے روندے ہوئے نشیب و فراز
خرد کے پائے سفر تک ابھی نہیں پہنچے
سمجھ رہے ہیں جو خود کو کہ ہیں بلندی پر
بلندیوں کی کمر تک ابھی نہیں پہنچے
جنہوں نے دستِ مشقت سے بیج بوئے تھے
وہ ہاتھ شاخِ ثمر تک ابھی نہیں پہنچے
وہ شعلے آپ کے گھر تک پہنچ بھی سکتے ہیں
جو شعلے آپ کے گھر تک ابھی نہیں پہنچے
بہت سے درِّ گراں مایہ ایسے ہیں صابرؔ
جو قدرداں کی نظر تک ابھی نہیں پہنچے
*****
|