* کاغذی گل میں گلوں کی خو کہاں سے لائ *
کاغذی گل میں گلوں کی خو کہاں سے لائو گے
پھول کی مانند رنگ و بو کہاں سے لائو گے
گائوں اپنا چھوڑ کر جانے سے پہلے سوچ لو
ضد اگر بچّے کریں جگنو کہاں سے لائو گے
میں نہ کہتا تھا کہ اِس بزم عزا سے اٹھ چلو
روز رونے کے لئے آنسو کہاں سے لائو گے
رقص کرنا سیکھ لو زنجیر کی جھنکار پر
کوچۂ زنداں یہ ہے گھنگھرو کہاں سے لائو گے
جراتِ گفتار بھی پیدا نہ کرپائے میاں!
اپنے اندر قوتِ بازو کہاں سے لائو گے
شعبدہ بازی تمہاری سب پرانی ہو چکی
اب نیا منتر نیا جادو کہاں سے لائو گے
بے تکلف دوستوں کی انجمن تو اٹھ گئی
صابر ؔاب ہونٹوں پہ لفظِ تو کہاں سے لائو گے
*****
|