* جو ہے کمزور طاقت کے مقابل بیٹھ جات *
جو ہے کمزور طاقت کے مقابل بیٹھ جاتا ہے
سمندر َسر اٹھاتا ہے تو ساحل بیٹھ جاتا ہے
اُسے دشوار راہوں سے گزرنا ہی نہیں آتا
سفر میں جب بھی پیش آتی ہے مشکل ، بیٹھ جاتا ہے
سجا کر خوبصورت جھاڑیاں آنگن میں مت رکھنا
کبھی اُن جھاڑیوں میں چھپ کے قاتل بیٹھ جاتا ہے
لبوں میں تھرتھراہٹ ہوتی ہے حق بات کہنے میں
کسی کے دل میں جب خوفِ سلاسل بیٹھ جاتا ہے
عجب یہ حال ہے میرا کہ جب بھی بزم سے اُن کی
میں اُٹھنا چاہتا ہوں تو مرا دل بیٹھ جاتا ہے
مسلسل منزلوں چلتا ہے کوئی راہ رَو صابرؔ
کوئی چلتے ہوئے منزل بہ منزل بیٹھ جاتا ہے
*****
|