* اب کہاں کرتا ہے کوئی قصرِ سلطانی ک *
اب کہاں کرتا ہے کوئی قصرِ سلطانی کا ذکر
کررہے ہیں گنبد و محراب ویرانی کا ذکر
ہر قدم پر ہیں یہاں دشواریوں کے تذکرے
راہِ مشکل میں کہاں پائوگے آسانی کا ذکر
اس جہانِ آب وگل میں کس کو حاصل ہے سکون
کررہا ہے ہر کوئی اپنی پریشانی کا ذکر
آجکل تو ہیں یہی سب سرخیاں اخبار کی
بے لباسی کے فسانے اور عریانی کا ذکر
جشن آزادی کا مقصد بن گیا ہے کھیل کود
کوئی اب کرتا نہیں پرکھوں کی قربانی کا ذکر
بات اس میں عقلمندی کی کوئی ہوگی ضرور
ہم نہیں کرتے خرد مندوں کی نادانی کا ذکر
**************** |