* یقیں تیری وفائوں پر نہ کیوں اے مہر *
یقیں تیری وفائوں پر نہ کیوں اے مہرباں کرتے
نہ تھی فرصت کہ ہم تجزیۂ سود و زیاں کرتے
زباں سے کس طرح کیفیتِ دل ہم بیاں کرتے
تقاضا یہ ادب کا تھا خموشی کو زباں کرتے
جو تنکے بچ گے تھے اُن کو پھر سے آشیاں کرتے
نہ یوں کرتے تو کب تک شکوۂ برق تپاں کرتے
ہماری بادہ نوشی اپنی اک تہذیب رکھتی ہے
اسے ہم کس طرح منت کشِ پیرِ مغاں کرتے
اثر کچھ اور ہوتا سننے والوں پر فسانے کا
بیاں تم نے کیا جس کو اگر وہ ہم بیاں کرتے
مخالف تھیں ہوائیں اور خفا تھی موجِ دریا بھی
ہم اپنی کشتیاں کیسے سپردِ بادباں کرتے
وہ جائے سجدہ ریزی کعبۂ تہذیب بن جاتی
خلوصِ دل سے گر اہلِ ادب سجدے جہاں کرتے
خدا کا شکر ہے صابرؔ یہ سیکھا ہی نہیں ہم نے
کہ آنکھیں موند کر تقلیدِ میرِ کارواں کرتے
****
|