* کسی تیرِ محبت کا نشانہ ہو بھی سکتا *
کسی تیرِ محبت کا نشانہ ہو بھی سکتا ہے
تعجب اِس میں کیا، دل ہے دوانہ ہو بھی سکتا ہے
یہ جو بکھرے پڑے ہیں راہ میںبیکار سے تنکے
انہیں چن چن کے تعمیر آشیانہ ہو بھی سکتا ہے
ہم اپنی داستاں کو کیسے اپنی داستاں سمجھیں
یہی سارے زمانے کا فسانہ ہو بھی سکتا ہے
اگر وہ دُور رہ کر ہم سے واقف ہے تو حیرت کیا
تعارف تو کسی سے غائبانہ ہو بھی سکتا ہے
پرندوں کو نہیں صیاد کی سازش کا اندازہ
گرفتاری کا باعث آب و دانہ ہو بھی سکتا ہے
نئے پن کی چمک قائم ہمیشہ رہ نہیں سکتی
نیا جو آج ہے وہ کل پرانا ہو بھی سکتا ہے
یہ جو کمزور طبقے ہر طرح کا ظلم سہتے ہیں
کسی دن طرز اُن کا باغیانہ ہو بھی سکتا ہے
اگر حق بات کہنا ہے تو پھر کیا سوچنا صابرؔ
مخالف آپ کا سارا زمانہ ہو بھی سکتا ہے
*****
|