* جلے تھے دشتِ جہاں میں رہِ عدم میں ج *
جلے تھے دشتِ جہاں میں رہِ عدم میں جلے
غموں کی آگ میں ہم لوگ ہر جنم میں جلے
جلا سکے نہ امیروں کو تیرے قہر کی دھوپ
تنِ غریب ترے سایۂ کرم میں جلے
اُسے ہی آگ نہ سمجھو جلے جو چولہے میں
ہے آگ وہ بھی جو نادار کے شکم میں جلے
جلائے روغنِ زیتوںسے چاہے گھی سے کوئی
دیا تو ایک ہے بت خانہ یا حرم میں جلے
چراغِ دل کہ ہے روشن شبِ فراق میں جو
خدا کرکے کبھی خلوت گہِ صنم میں جلے
رہینِ عیش ہوئے بھی تو چین مل نہ سکا
اسیرِ کرب تھے صابرؔ تو سوزِ غم میں جلے
****
|