* چھت گرپڑی مری در و دیوار گر پڑے *
چھت گرپڑی مری در و دیوار گر پڑے
آندھی نے سر اٹھایا تو گھربار گر پڑے
پھر یہ ہوا کہ ہم کو سنبھلنا بھی آگیا
چلتے ہوئے جو راہ میں اک بار گر پڑے
کشتی کو ایسے حال میں قسمت پہ چھوڑ دو
جب ناخدا کے ہاتھ سے پتوار گر پڑے
جھک کر ملو کسی سے تو یہ بھی رہے خیال
اتنا نہ سر جھکائو کہ دستار گر پڑے
راہِ مسابقت میں ہوا ایسا بارہا
ناداں جو تھے سنبھل گئے ، ہشیار گر پڑے
رن میں کبھی کرو نہ تصوّر شکست کا
ایسا نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے
اچھی ہے زود گوئی مگر احتیاط سے
صابرؔ کہیں نہ شعر کا معیار گر پڑے
*****
|