* سیکڑوں داستان رکھتی ہے *
سیکڑوں داستان رکھتی ہے
خامشی بھی زبان رکھتی ہے
اپنے اُوپر بھی اور نیچے بھی
یہ زمیں آسمان رکھتی ہے
پرَ سے محروم ہے اگر تو کیا؟
فکر اُونچی اُڑان رکھتی ہے
اے سمندر تری کوئی کشتی
اب کہاں بادبان رکھتی ہے
دیکھو ننھی سی ایک تتلی بھی
رنگ و بو پر دھیان رکھتی ہے
زندگی میرے سامنے صابرؔ
روز اک امتحان رکھتی ہے
******
|