* عروسِ فن کے گیسوئے وصال میں الجھ گ *
عروسِ فن کے گیسوئے وصال میں الجھ گئے
ہم آج یوں تسلسلِ خیال میں الجھ گئے
اُمید تھی کہ بات کچھ بنے گی بات چیت سے
مگر تمام لوگ قیل وقال میں الجھ گئے
اکیسویں صدی سے کس طرح کریں گے وہ نباہ
جو بیسویں صدی کے ماہ وسال میں الجھ گئے
وہ سیدھے سادے لوگ راہِ ضبط پر تھے گامزن
نہ جانے کیسے خارِ اشتعال میں الجھ گئے
جو حل طلب سوال نامے آئے اُن کے سامنے
جواب کیا وہ ڈھونڈتے سوال میں الجھ گئے
براجمان تھے جو لوگ مسندِ عروج پر
وہ صابرؔ آج پنجۂ زوال میں الجھ گئے
************** |